قاضی کا شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کو طلاق کا اختیار دینا
قاضی کا شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کو طلاق کا اختیار دینا
سوال: محترم مفتی صاحب
میری شادی کے وقت میں نے قاضی صاحب سے درخواست کی کہ نکاح نامے کے۱۸ نمبر کالم میں’’نہیں‘‘ درج کیا جائے،لیکن مختلف حالات کی وجہ سے انہوں نے مجھے’’نہیں‘‘درج کرنے کی اجازت نہیں دی،نتیجتا ۱۸ نمبر شق(جہاں شوہر کی طرف سے بیوی کو مختلف شرائط کے تحت طلاق دینے کی طاقت درج ہوتی ہے)مکمل طور پر خالی ہونے کے باوجود میں نے نکاح نامے پر دستخط کئے۔
دستخط کے وقت مجھے معلوم تھا کہ میرے دستخط کے بعد قاضی صاحب خود بخود وہاں بیوی کو مختلف شرائط کے تحت طلاق دینے کی طاقت درج کر دیں گے۔(حالانکہ میں اس سے مطمئن نہیں تھا اور میری طرف سے اس کی اجازت بھی نہیں تھی)اس کے باوجود میں نے۱۸ نمبر شق مکمل خالی رہنے کی صورت میں دستخط کئے۔
اب محترم مفتی صاحب، سوال یہ ہے:چونکہ میں نے۱۸ نمبر شق مکمل خالی رہنے کے باوجود دستخط کئے،کیااب یہ سمجھا جائے گا کہ میری بیوی نے خود کو طلاق دینے کا اختیار حاصل کرلیا ہے؟یعنی اگر میری بیوی۱۸ نمبر کالم میں درج شرائط کی بنیاد پر(جو قاضی نے میرے دستخط کے بعد خالی خانہ میں درج کی ہیں)خود طلاق دے تو کیا یہ طلاق شرعی طور پر نافذ ہوگی یا غیر نافذ ہوگی؟
براہ کرم مجھے اس سلسلے میں رہنمائی فراہم کریں میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں گا۔
قابل ذکر ہے کہ میرے سسرال کے موقف اور ڈاک آفس کے میسجز کے مطابق میرے سسرال کی طرف سے طلاق نامہ بھیجا گیا ہے،لیکن یہ ابھی تک میرے ہاتھ نہیں پہنچا۔
الجواب حامداً ومصلیاً
واضح رہے کہ جس طرح شرعی طور پر طلاق دینے کا حق شوہر کو ہے اسی طرح بیوی کو طلاق دینے کا حق بھی شوہر کو حاصل ہے ،لہٰذا صورت مسئولہ میں شوہر کی اجازت اور طلاق کی نیت کے بغیر قاضی یا کسی اور فر کا بیوی کو طلاق کا اختیار دینا شرعا درست نہیں ہے عورت کا اس خیار کو استعمال کرکے اپنے اوپر طلاق نافذ کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی،عورت چونکہ بدستور شوہر کے نکاح میں ہے اس لئے اس کا کہیں اور نکاح کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔
کما فی المصنف ابن أبی شیبہ:
عن یحیی ابن سعید عن ابن المسیب قال:الطلاق للرجال والعدۃ للنساء۔
(کتاب الطلاق،ومن قال الطلاق بالرجال والعدۃ للنساء ج۲ص۶۱۴ ط:ادارۃ القرآن والعلوم الإسلامیۃ)
وفی الشامی:
(ھو)لغۃ من علقہ تعلیقا قاموس:جعلہ معلقا۔واصطلاحا (ربط حصول مضمون جملۃ بحصول مضمون جملۃ اخری۔۔۔(شرطہ الملک)حقیقۃ۔۔۔أو حکما،ولو حکما(کقولہ لمنکوحتہ)أو معتدتہ (إن ذھبت فانت طالق ،أو الاضافۃ الیہ) أی الملک الحقیقی عاما أو خاصا۔
(کتاب الطلاق،باب التعلیق ج۳ ص۳۴۱تا۳۴۴،ط:رشیدیہ)
وفی المحیط البرھانی:
والأصل فی ھذا:أن الزوج یملک ایقاع الطلا ق بنفسہ فیملک التفویض إلیٰ غیرہ فیتوقف عملہ علی العلم؛لأن تفویض طلاقھا إلیھا یتضمن معنی التملیک،لانھا فوض الیھا من طلاقھا عاملۃ لنفسھا دون الزوج،والانسان فیما یعمل لنفسہ یکون مالکا ولا یکون بائنا عن المرأۃ۔
(کتاب الطلاق،الفصل الخامس فی الکنایات ج۴ص۴۳۹ ط:ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)
وفی بدائع الصنائع:
واما شرط صیرورۃالامر بینھما فشیأن:أحدھما نیۃ الزو ج الطلاق لانہ من کنایۃ الطلاق فلا یصح من غیر نیۃ الطلاق۔ألا تری أنہ لا یملک ایقاعہ بنفسہ من غیر نیۃ الطلاق فکیف یملک تفویضہ الیٰ غیرہ من غیر نیۃ الطلاق۔
(کتاب الطلاق،فصل أما قولہ أمرک بیدک ج۳ص۱۸۰ ط:رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب